
اجوائن۔

health, life Care health knowledge science medical News
تھیلیسیمیا یا خون میں خرابی کی بیماری آسانی سے سمجھ میں آنے والا جائزہ جس میں خون کی خرابی یا بے ترتیبی کی وجوھات ، علامات اور علاج کے بارے میں بتاتا ھے جسکی وجہ جننیات کی خرابی ھوتی ھے،جو خون میں ھیموگلوبین کی پیداوار کو کنٹرول کرتی ھیں۔تھلیسمیا کی بیماری کیا ھے؟تھیلیسیمیا خون کی بیماریوں کا مجموعہ ھے جو کہ بے قائدہ ھیموگلوبین کی پیداوارکی وجہ سے بنتا ھے۔ ھیموگلوبین ایسی پرو ٹین ھے جو کہ سرخ جرثوموں میں پائِ جاتی ھے جو جسم کے لئے آکسیجن لانے کا کام کرتے ھیں۔ِ تھیلیسیمیا مورثی انیمیا بھی ھو تا ھے۔ یہ بیماری مشرق وسطی، افریقہ یا ایشیا میں پائی جاتی ھے۔ تھیلیسمیا کی بہت سی اقسام ھیں۔ یہ علامات کے بغیر سے لیکر مہلک حد تک ھو سکتی ھے۔ اگر آپ کو بہت معمولی تھلیسمیا ھے تو اس کا مطلب یہ آپ بیماری کو اٹھائے ھوئےَ ھیں اور آپ کے ریڈ خونی ذرات نارمل سے چھوٹے ھیں۔ لیکن آپ تندرست ھیں۔تھیلسمیا میجر مہلک بھی ھو سکتا ھے۔ آیسے لوگ جن کو ایلفا تھیلسمیا میجر ھوتا ھے وہ بچپن میں ھی وفات پا جا تے ھیں ۔ بیٹا تھیلسمیا میں خون بدلواتے رھنے کی ضرورت ھوتی ھے۔ تھیلسمیا کی دوسری اقسام بھی ھیں جو کی زیادہ شدید نہیں ھوتیں۔تھیلسمیا کی علامات اورناتھلسمیا میجر کی علامات نومولودی سے ھی شروع ھو جاتی ھیں۔ یہ علامات انیمیا کے مریضوں جیسی ھی ھوتی ھیں جیسے کہ:
اسکے علاوہ دوسری علامات بھی ھو سکتی ھیں:
وجوھاتخون میں بے ترتیبی کی وجہ جین کی خرابی ھوتی ھے جو کہ ھیموگلوبن کی پیداوار کو کنٹرول کرتی ھے۔ بچے اس جین کو ایک یا دونوں والدین سے وراثت میں لیتے ھیں۔ اگر بچہ دونوں والدین سے خراب جین لیتا ھے تو اسے میجر تھیلیسمیا ھوتا ھے۔ اگر دو میں سے ایک والدین سے لیتا ھے تو اسے تھیلسمیا مائنرھوتا ھے۔تب یہ بچہ خراب جین کا کیرئیر ھوتا ھے۔مورثی بیٹا تھیلسمیا
اس مثال میں دونوں والدین بیٹا تھیلسمیا کے کیریر ھوتے ھیں۔ انہیں خون کی کمی بھی ھو سکتی ھے۔ ان کے بچے ایک، دو یا تین کاپیاں وراثت میں لے سکتے ھیں۔اگر بچہ وراثت میں اس جین کی ایک کاپی لیتا ھے تو وہ اپنے ماں باپ کی طرح کا کیریر بنتا ھے۔ اگر بچہ دو کاپیاں وراثت میں لیتا ھے تو وہ بیٹا تھیلسمیا کی بیماری لیتا ھے[ یعنی شدید یا کم شدید انیمیا]ڈاکٹر تھیلسمیا والے بچے کی کیسے مدد کر سکتا ھے؟آپ نے اپنے بچے میں اس بیماری کی جو بھی علامات اور نشان دیکھے ھیں ، انِہیں اپنے ڈاکٹر کو بتائِے۔ خون کے ٹیسٹ کے بعد ھی بیماری کی تشخیش ھو سکتی ھے۔ ‘ تھیلسمیا مائینر’ کے لئے کسی علاج کی ضرورت نہیں ھوتی،جب کہ’ تھلسمیا میجر’ کو ھر ماہ خون بدلوانے کی ضرورت ھوتی ھے ۔ جسکی وجہ سے خون میں فولاد کی مقدار بڑھ جاتی ھے اور اس سے جگر کے خراب ھونے کا خطرہ ھو جاتا ھے۔ اس نقصان کو دور کرنے کے لئے دوائیاں دی جاتی ھیں جس سے آئرن کی زیادتی میں کمی واقع ھو جاتی ھے۔
پرھیزجن لوگوں کوکسی قسم کا بھی تھیلسمیا ھے انہیں جننیاتی کونسلینگ کی ضرورت ھے۔ پیدائش سے قبل کے ٹیسٹ بھی کرائے جا سکتے ھیں
پیچیدگیاںخرابی خون کی بیماری میں مبتلا بچے کو پتے میں پتھرھو سکتے ھیں۔ بڑھوتڑی میں کمی ھو سکتی ھے ، اگر اس بیماری کا علاج نہ کیا جائے تو دل کا فیل ھو جانا یا انفیکشن ھو جانا ،موت کی وجہ بن سکتا ھے۔ جب علاج شروع ھوتا ھے توسب سے بڑی پیچیدگی خون میں زیادہ آئرن کا ھونا ھے۔
طبعی مدد کب لینی چاھیےآگر آپکے بچے میں خون کی کمی کی علامات پائی جاتی ھیں تو فوری بچے کے ڈاکٹر سے رابط قائم کریں۔ اگر آپکے خاندان میں تھیلسمیا کی بیماری کی ھسٹری ھے تو آپ کے لیئے اپنا خون کا ٹیسٹ کروانا بھی ضروری ھے۔ مطلب کہ آپ خود کیریر ھیںَ
کلیدی نکات
گردے انسانی جسم کا اہم عضو ہیں، دنیا میں ہر سال پچاس ہزار سے زائد افراد گردے کے مختلف امراض میں مبتلا ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ گردہ عطیہ کرنے والوں کی کمی ہے۔
پاکستان میں اس حوالے سے مستند اعدادوشمار تو دستیاب نہیں مگر ایک اندازے کے مطابق لاکھوں افراد گردے کے مختلف امراض میں مبتلا ہیں جبکہ ایسے مریضوں کی تعداد میں سالانہ 15 سے 20 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر افراد گردے کے امراض کو نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن یہ ایک ایسی بیماری ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق گردوں کے امراض سے بچنے کے لیے پانی کا زائد استعمال، سگریٹ نوشی اور موٹاپے سے بچنا ضروری ہے۔
اگر درج ذیل نشانیاں سامنے آئے تو ڈاکٹر سے ضرور رجوع کیا جانا چاہیے۔
جب گردے اپنے افعال درست طریقے سے سرانجام نہیں دے پاتے تو اس کے نتیجے میں زہریلا مواد جسم سے پیشاب کے راستے خارج نہیں ہوپاتا اور خون میں موجود رہتا ہے، اس مواد کی سطح بڑھنے سے سونا مشکل ہوجاتا ہے اور بے خوابی کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی طرح گردوں کے مریضوں میں نیند کے دوران سانس لینے میں مشکل کا عارضہ بھی سامنے آسکتا ہے اور اگر کوئی فرد اچانک خراٹے لینے لگے تو اسے ڈاکٹر سے رجوع کرنا جانا چاہیے۔
گردوں کی کارکردگی میں کمی آنے سے الیکٹرولائٹ عدم توازن کا شکار ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پر کیلشیئم کی سطح میں کمی اور فاسفورس کا کنٹرول سے باہر ہونا مسلز اکڑنے کا باعث بنتے ہیں۔
اگر گردے درست کام کررہے ہوں تو وہ جسم میں وٹامن ڈی کو ہڈیوں کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ ایک ہارمون ای پی او بنانے کا کام بھی کرتے ہیں، یہ ہارمون خون کے سرخ خلیات بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اگر گردے مسائل کا شکار ہوں تو ای پی او کی مقدار کم بنتی ہے جس سے خون کے سرخ خلیات میں کمی آتی ہے جو جسم اور دماغ کو اچانک تھکاوٹ، سردرد اور جسمانی کمزوری کا شکار کردیتا ہے۔ خیال رہے کہ گردوں کے امراض میں اینیمیا کا مرض عام ہوتا ہے۔
اگر گردوں کو نقصان پہنچے تو جسم میں پوٹاشیم کی مقدار بڑھنے لگتی ہے جو دل کی دھڑکن میں غیر معمولی تیزی کی شکل میں سامنے آتی ہے۔
جیسا بتایا جاچکا ہے کہ گردے جسم میں جمع ہونے والے کچرے کی صفائی کا کام کرتے ہیں، خون کے سرخ خلیات کی سطح بڑھانے اور جسم میں منزل کی سطح مناسب سطح پر رکھتے ہیں۔ خشک اور خارش زدہ جلد اس بات کی نشانی ہے کہ گردے منرلز اور غذائی اجزاءکا درست توازن نہیں رکھ پارہے۔ اگر آپ کی جلد خشک اور خارش زدہ ہورہی ہے تو زیادہ سے زیادہ پانی پینا چاہیے اور خارش کے لیے کوئی دوا لینے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ لینا چاہیے۔
اگر جسم میں کافی مقدار میں کچرا جمع ہوجائے تو دل متلانے یا قے کا تجربہ اکثر ہونے لگتا ہے، درحقیقت یہ جسم اپنے اندر جمع ہونے والے مواد سے نجات کی کوشش کا نتیجہ ہوتا ہے، دل متلانے کے نتیجے میں کھانے کی خواہش ختم ہونے لگتی ہے، اگر ایسا کچھ عرصے تک ہوتا رہے تو جسمانی وزن میں بہت تیزی سے کمی آتی ہے۔
جب کچرا خون میں جمع ہونے لگتا ہے تو کھانے کا ذائقہ بدلا ہوا محسوس ہوتا ہے اور منہ میں دھات یا میٹالک ذائقہ رہ جاتا ہے۔ اسی طرح سانس میں بو پیدا ہونا بھی دوران خون میں بہت زیادہ زہریلا مواد جمع ہونے کی علامت ہے۔ مزید برآں ایسا ہونے پر گوشت کھانے یا کھانے کی ہی خواہش کم یا ختم ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں جسمانی وزن میں غیرمتوقع کمی آتی ہے۔ ویسے منہ کا ذائقہ بدلنے کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں اور عام علاج سے مسئلہ دور ہوجاتا ہے، تاہم اگر یہ علاج کے باوجود برقرار رہے تو اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
گردوں کے امراض اور سانس گھٹنے کے درمیان تعلق پایا جاتا ہے، خصوصاً تھوڑی سی جسمانی سرگرمی کے بعد یہ مسئلہ لاحق ہوجاتا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہوتی ہیں، ایک تو گردوں کے کام نہ کرنے سے جسم میں اضافی سیال پھیپھڑوں میں جمع ہونا، دوسری خون کی کمی جسم میں آکسیجن کی کمی کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں سانس گھٹنے لگتا ہے۔ اگر آپ کو تھوڑا کام کرنے کے بعد بھی سانس لینے میں مشکل ہوتی ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے کیونکہ یہ گردوں سے ہٹ کر دمہ، پھیپھڑوں کے کینسر اور ہارٹ فیلیئر کی نشانی بھی ہوسکتی ہے۔
چونکہ گردے پیشاب کے لیے ضروری ہیں، لہذا جب وہ کسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں تو اکثر لوگوں کو پیشاب کی خواہش تو ہوتی ہے مگر آتا نہیں، جبکہ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو عام معمول سے ہٹ کر واش روم کے زیادہ چکر لگانے لگتے ہیں، متعدد افراد کو یہ مسئلہ راتوں کو جاگنے پر مجبور کرتا ہے۔
جب گردے جسم سے اضافی سیال کو خارج کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو نمکیات کا اجتماع ٹخنوں، پیروں اور ہاتھوں کے سوجنے کا باعث بنتا ہے، زیریں جسم کے اعضا سوجنا دل اور جگر کے امراض یا ٹانگ کی شریان میں مسائل کی نشانی بھی ہوتی ہے۔ کئی مرتبہ ادویات کے استعمال سے نمک اور اضافی سیال میں کمی آتی ہے جس سے سوجن رک جاتی ہے، تاہم اگر اس سے مدد نہ ملے تو ڈاکٹر سے علاج میں تبدیلی کا مشورہ کرنا چاہیے۔
گردے کا کام روکنا یا کڈنی فیلیئر کمردرد کا باعث بنتا ہے جو عام طور پر دائیں جانب پسلی کے نیچے محسوس ہوتا ہے۔ یہ درد کولہوں میں بھی محسوس ہوسکتا ہے۔ کمر اور پیر میں درد گردوں میں مواد جمع ہونے کی نشانی ہوسکتی ہے۔ کڈنی فیلیئر کی شکل میں کمرمیں ہونے والا درد کے ساتھ بخار، متلی اور پیشاب زیادہ آنے کی تکلیف بھی ہوسکتی ہے۔
گردوں کے نظام میں خرابی کی ابتدائی علامات میں سے ایک آنکھوں کے ارگرد کا حصہ پھولنا ہوتا ہے، یہ اس بات کی جانب اشارہ ہوتا ہے کہ گردوں سے بڑی مقدار میں پروٹین کا اخراج پیشاب کے راستے ہورہا ہے۔ اگر ایسا ہونے پر جسم کو مناسب آرام اور پروٹین ملے اور پھر بھی آنکھوں کے ارگرد پھولنے کا عمل جاری رہے تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
دوران خون اور گردے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں، گردے خون میں موجود کچرے اور اضافی سیال کو فلٹر کرتے ہیں اور اگر شریانوں کو نقصان پہنچے تو گردے کے اس حصے جو خون کو فلٹر کرتے ہیں، اسے آکسیجن اور غذائیت نہیں مل پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کڈنی فیلیئر کا خطرہ بڑھانے والی دوسری بڑی وجہ ہے۔
گردے پیشاب بنانے کے ذمہ دار ہیں اور اس کے ذریعے کچرے کا اخراج کرتے ہیں، اگر پیشاب کی بو، رنگت وغیرہ میں تبدیلی آئے تو اسے کبھی نظرانداز مت کریں۔ ایسی تبدیلیاں جیسے پیشاب زیادہ کرنا خصوصاً رات کو، پیشاب میں خون آنا یا جھاگ بننا وغیرہ۔